Friday, December 2, 2011

لڑکی والوں کے یہاں شادی کا کھانا ناجائز کیوں - مولانا سید شہاب عالم ندوی


بعض لوگ کہتے ہیں کہ لڑکی والے اگر نکاح کے موقع پر اپنی خوشی سے دعوت کردیں تو اس میں کیا برائی ہے اور شرعی اعتبار سے اس کی ممانعت کی دلیل کیا ہے ؟ تو اس مسئلے کو دو پہلو ہیں : پہلا یہ کہ اگر ایسا کھانا لڑکے والوں کے مطالبہ پر ہو تو وہ صاف طور پر "اکلِ باطل" ہے جس کی ممانعت قرآن مجید میں آئی ہے {سورۃ نساء 29} چناچہ اس آیت کے مطابق لوگوں کا مال نا حق کھانا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔اور مفسرین نے تصریح کی ہے کہ بغیر کسی معاوضہ کے کسی کا مال کھانا بھی اکل باطل ہے میں شامل ہے ۔پھر چونکہ شریعت نے شادی بیاہ کے اخراجات مرد پر عائد کیے ہیں عورت پر نہیں اس لیے لڑکی والوں سے اس قسم کا مطالبہ کرنا شرعاً نا جائز ہے اور پھر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا سنت صحابہ سے بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اسلامی دور میں لڑکی والوں نے کبھی نکاح کی دعوت کی ہو ۔ بلکہ اگر ثبوت ملتا ہے تو صرف ولیمے کا جو مرد کی طرف سے کیا جاتا ہے ۔ اور  یہ بات عقلی اعتبار سے بھی صحیح ہے ۔ کیونکہ لڑکی لڑکے کا گھر بسانے کے لیے لڑکے کے یہاں جاتی ہے نا کہ لڑکا لڑکی کا گھر بسانے کے لیے لڑکی کے یہاں جاتا ہے ۔اِس لئے نظام فطرت کی رو سے جب اِس کا فائدہ مرد کو مِل رہا ہے تو اس کے اخراجات بھی اس ہی کو برداشت کرنے پڑیں گے۔

اب رہا یہ دوسرا پہلو کہ اگر لڑکی والے بغیر کسی مطالبہ کہ اپنی خوشی سے دعوت کردیں تو اس میں کیا برائی ہے ؟ تو اس طرح کہدینا بظاہر تو ایک آسان بات معلوم ہوتی ہے مگر وہ در حقیقت بجائے خود بہت سی برائیوں کا مجموعہ ہے۔ مگر اس موقع پر تین باتوں لحاظ رکھنا ضروری ہے : پہلی  بات اگر لرکی والے اس قسم کا کھانا اپنی خوشی سے ہی کیوں نہ کھلائیں تب بھی وہ لڑکی والوں پر ایک خلاف شرع بوجھ ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اگر چہ وہ بظاہر خوش دلی سے کھلاتے ہوئے دکھائی دیتے ہوں مگر دل ہی دل میں کُڑحھ رہے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ جب شریعت نے اس قسم کی گنجائش ہی نہیں رکھی ہے تو پھر ہم اس کی گنجائش کیوں نکالیں ؟ دوسری بات یہ کہ جب کچھ لوگ  محض خوش دلی ہی سے سہی جب کوئی کام شروع کرتے ہیں تو وہ بعد والوں کے لیے ایک مثال اور ایک "روایت" بن جاتا ہے اور لوگ عام طور پر اپنے بزرگوں کے روایات پر عمل کرنا اور اس کے لئے کوئی بھی مشکل گوارا کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ لہزا بات جب یہاں تک پہنچ جائے تو محض خوش دلی کا نہیں رہ جاتا ۔ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ نکاح کی موجودہ دعوتیں اول اول کسی نے بغیر کسی جبر کے خوش دلی ہی سے کھلائی ہوں گی ۔ مگر آج معاملہ محض خوش دلی کا نہیں رہ گیا ہے بلکہ اسے فرض و واجب  کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔ اگر کوئی غریب آدمی اپنی لڑکی کے نکاح پر دعوت نہ کرے تو نہ صرف اس نکاح کو ادھورا سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے نکّو اور نکما تک قرار دیا جاتا ہے ۔ گویا اس سے بہت بڑا گناہ سر زد ہوگیا ہو۔

تیسری بات یہ کہ اگر اس طرح ہر شخص کو چھوٹ دے دی جا ئے کہ اگر کوئی چاہے تو اپنی خوشی سے دعوت کرے اور اگر نہ چاہے تو نہ کرے تو اس کے نتیجے میں ہمارا معاشرا واضع طور پر دو طبقوں میں بٹ جائے گا اور بعض نئے سماجی مسائل پیدا ہوجائیں گے ۔ چناچہ لوگ عموماً دعوت کرنے والوں کی تعریف کرتے اور نہ کرنے والوں پر طعنے کستے رہیں گے ۔ اس طرح استطاعت نہ رکھنے والے ہمیشہ احساس کمطری میں مبطلا رہیں گے۔

ان کے علاوہ بھی اور کئی طرح کی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں، لہذا ضروری ہے کہ ایسے تمام غیر شرعی رسوم و رواجات کو ختم کر کے ہزاروں لاکھوں بندگانِ خدا کو راحت پہنچائی جائے جو زمانے کے بے رحم ہاتھوں میں پھنس کر اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں اور جن کے گھروں میں دو چار لڑکیاں موجود ہیں وہ تو گویا کہ زندہ درگور ہیں۔


{نکاح کتنا آسان اور کتنا مشکل از مولانا محمد شہاب الدین ندوی حفظہ اللہ } 

No comments:

Post a Comment