Friday, December 2, 2011

امت مسلمہ کی اہل مغرب کی اندھی تقلید

   امت  مسلمہ کی اہل مغرب کی اندھی تقلید

      (مولانا  سید ابو اعلیٰ مودودی کی کتاب پردہ سےاقتباس)


یہی بہرانی کیفیت کا زمانہ تھا جس میں مغربی معاشرت ،مغربی آداب و اطوار حتٰی کہ چال ڈھال اور بول چال تک میں مغربی طریقوں کی نقل اُتاری گئی۔مسلم سوسائٹی  کو مغربی سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کی گئیں۔الحاد،دہریتاور مادہ پرستی کو فیشن کے طور پر بغیر سمجھے بوجھے قبعل کیا گیا۔ہر وہ پختہ یا خام تخیل جو مغرب سے آیا ،اس پر ایمان بل غیب لانا اور اپنی مجالس میں اسےمعرض بحث بنانا روشن خیالی کا لازمہ سمجھا گیا ۔شراب ،جوا ،لاٹری،ریس ،تھیٹر،رقص و سرور اور مغربی تہذیب  کے دوسرے سمرات کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔شائستگی ،اخلاق ،معاشرت ،معیشت،سیاست ،قانون،حتّٰی کہ مذہبی عقائد  اور عبادات  کے متعلق بھی جتنے مغربی نظریات یا عملیات تھے  انھیں کسی تنقید اور کسی فہم و تدبر کے بغیر اس طرح تسلیم کرلیا گیا کہ گویا وہ آسمان سے اُتری ہوئی وہی وحی ہیں جس پر سمعنا و اطعنا کہنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ۔اسلامی تاریخ کے واقعات ،اسلامی شریعت کے احکام اور قران و حدیث کے بیانات میں سے جس جس  چیز کو اسلام کے پُرانے دشمنوں نے نفرت یا  اعتراض کی نگاہ سے دیکھا اس پر مسلمانوں کو شرم آنے لگی اور انھوں نے کوشش کی کہ اس داغ کو کس طرح دھوڈالیں۔انھوں نے جہاد پر اعتراض کیا ۔انھوں نے عرض کیا کہ حضور بھلا ہم کہاں اور جہادکہاں؟انھوں نے غلامی پر اعتراض کیا ۔انھوں نے کہا غلامی تو ہمارےہاں بلکل ہی نا جائز ہے۔انھوں نے تعددازدواج  پر  اعتراض کیا ۔انھوں نے فوراً  قران پاک کی ایک آیت پر خط نسخ پھیر ڈالا۔انھوں نے کہاعورت و مرد میں کامل مساوات ہونی چاہیے،انھوں نے کہا یہی ہمارا مذہب بھی ہے۔انھوں نے قوانین نکاح و طلاق پر اعتراضات  کئے۔یہ ان  سب میں ترمیم کرنے پر تل گئے۔انھوں نے کہا اسلام آرٹ کا دشمن ہے۔انھوں نے کہا اسلام آرٹ کا دشمن ہے۔انھوں نے کہا اسلام تو ہمیشہ سےناچ گانے اور مصوری وبت تراشی کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔ 

No comments:

Post a Comment