Friday, December 2, 2011

مسلمان کی تعریف - مولانا سید ابو الاعلی مودودی

 مسلمان کہتے ہی اُس کو ہیں جو خدا کے سوا کسی کا بندہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کا پیرو نہ ہو ۔ مسلمان کہتے ہی اُس کو ہیں جو خدا کے سوا کسی کا پیرو نہ ہو ۔ مسلمان وہ ہے جو سچّے دِل سے اِس بات پر یقین رکھتا ہو کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سرا سر حق ہے ، اُس کے خلاف جو کچحھ ہے وہ باطل ہے اور انسان کے لیے دین اور دنیا کی بھلائِ جو کچھ بھی یے صرف خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیم میں ہے ۔ اِس بات پر کامل یقین جس شخص کو ہوگا وہ اپنی زندگی کے ہر معالملہ میں یہ صرف یہ دیکھے گا  کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حکم ہے ۔ اور جب اسے حکم معلوم ہوگا تو وہ سیدھی طرح سے اُس کے آگے سر جُھکا دے گا ۔ پھر چاہے اُس کا دل کتنا ہی تلملائے اور خاندان کے لوگ کتنی ہی باتیں بنائیں ، اور دنیا والے کتنی ہی مخالفت کریں ، وہ ان میں سے کسی کی پروا نہ کرے گا ، کیونکہ ہر ایک کو اس صاف جواب یہی ہوگا کہ میں خدا کا بندہ ہوں تمہارا بندہ نہیں ہوں۔ اور میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا ہوں ، تم پر ایمان نہیں لایا ہوں۔

اس کے بر خلاف اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ خدا اور رسول صلہ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ تو ہوا کرے ، میرا دل تو اس کو نہیں مانتا ، مجھے تو اس میں نقصان نظر آتا ہے ، اس لیے میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ کر اپنی رائے پر چلوں گا ، تو ایسے شخص کا دل ایمان سے خالی ہوگا ۔ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے کہ زبان سے تو کہتا ہے  کہ میں خدا کا بندہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیرو ہوں ، مگر حقیقت میں اپنے نفس کا بندہ اور اپنی رائے کا پیرو بنا ہوا ہے ۔

اِسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کچھ بھی ہو ، مگر فلاں بات تو باپ دادا سے ہوتی چلی آرہی ہے، اس کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے، یا فلاں قائدہ تو میرے خاندان یا برادری میں مقرر ہے ، اسے کیوںکر توڑا جا سکتا ہے ، تو ایسے شخص کا شمار بھی منافقوں میں ہوگا ، خواہ نمازیں پڑھتے پڑھتے اس کی پیشانی پر کتنا بڑا گٹّا پڑ گیا ہو اور ظاہر میں اُس نے کتنی بڑی متشرّع صورت بنا رکھی ہو ۔ اس لیے کہ دین کی حقیقت اُس کے دل میں اُتری ہی نہیں ۔ دین رکوع ،اور سجدے اور روزے کا نام نہیں ہے ، اور نہ دین انسان کی صورت اور اس کے لباس میں ہوتا ہے ، بلکہ اصل میں دین نام ہے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا ۔ جو شخص اپنے معاملات میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا انکار کرتا ہے ، اس کا دل حقیقت میں دین سے خالی ہے ، اس کی نماز اور روزہ اور اس کی متشرّع صورت ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔

اِسی طرح اگر کوئی شخص خدا کی کتاب اور اِس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے بے پروا ہو کر کہتا ہے فلاں بات اِس لیے اختیار کی جائے کہ وہ انگریزوں میں رائج ہے اور فلاں بات اس لیے قبول کی جائے کہ فلاں قوم اُس کی وجہ سے ترقی کر رہی ہے ، اور فلاں بات اس لیے مانی جائے کہ فلاں بڑا آدمی ایسا کہتا ہے ، تو ایسے شخص کو بھی اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے ۔ یہ باتیں ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ مُسلمان ہو اور مسلمان رہنا چاہتے ہو تو ہر اُس بات کو اُٹھا کر دیوار پر دے مارو جو خدا اور رسُول کی بات کے خلاف ہو۔ اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو اسلام کا دعوٰی زیب نہیں دیتا ۔ زبان سے کہنا کہ ہم خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں ۔ مگر اپنی زندگی کے معاملات میں ہر وقت دوسروں کی بات کے مقابلہ میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو در کرتے رہنا ، نہ ایمان ہے ، نہ اسلام ، بلکہ اس کا نام منافقت ہے

{ایمان کی کسوٹی - خطبات  حصہ اول - مولانا سید ابو الا علی مودودی رحمتہ اللہ علیہ}

No comments:

Post a Comment