Monday, December 12, 2011

نظریہ وطنیت اور اقبال


ترانہ ملی - علامہ محمد اقبال 

چين و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا 
مسلم ہيں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا 

توحيد کي امانت سينوں ميں ہے ہمارے 

آساں نہيں مٹانا نام و نشاں ہمارا 

دنيا کے بت کدوں ميں پہلا وہ گھر خدا کا 
ہم اس کے پاسباں ہيں، وہ پاسباں ہمارا 
تيغوں کے سائے ميں ہم پل کر جواں ہوئے ہيں 
خنجر ہلال کا ہے قومي نشاں ہمارا 
مغرب کي واديوں ميں گونجي اذاں ہماري 
تھمتا نہ تھا کسي سے سيل رواں ہمارا 
باطل سے دنبے والے اے آسماں نہيں ہم 
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا 
اے گلستان اندلس! وہ دن ہيں ياد تجھ کو 
تھا تيري ڈاليوں پر جب آشياں ہمارا 
اے موج دجلہ! تو بھي پہچانتي ہے ہم کو 
اب تک ہے تيرا دريا افسانہ خواں ہمارا 
اے ارض پاک! تيري حرمت پہ کٹ مرے ہم 
ہے خوں تري رگوں ميں اب تک رواں ہمارا 
سالار کارواں ہے مير حجاز اپنا 
اس نام سے ہے باقي آرام جاں ہمارا 
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گويا 
ہوتا ہے جادہ پيما پھر کارواں ہمارا 


وطنیت - علامہ محمد اقبال 

اس دور ميں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور 

ساقي نے بنا کي روش لطف و ستم اور 

مسلم نے بھي تعمير کيا اپنا حرم اور 

تہذيب کے آزر نے ترشوائے صنم اور 
ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے 
جو پيرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے 
يہ بت کہ تراشيدہء تہذيب نوي ہے 
غارت گر کاشانہء دين نبوي ہے 
بازو ترا توحيد کي قوت سے قوي ہے 
اسلام ترا ديس ہے ، تو مصطفوي ہے 
نظارہ ديرينہ زمانے کو دکھا دے 
اے مصطفوي خاک ميں اس بت کو ملا دے ! 
ہو قيد مقامي تو نتيجہ ہے تباہي 
رہ بحر ميں آزاد وطن صورت ماہي 
ہے ترک وطن سنت محبوب الہي 
دے تو بھي نبوت کي صداقت پہ گواہي 
گفتار سياست ميں وطن اور ہي کچھ ہے 
ارشاد نبوت ميں وطن اور ہي کچھ ہے 
اقوام جہاں ميں ہے رقابت تو اسي سے 
تسخير ہے مقصود تجارت تو اسي سے 
خالي ہے صداقت سے سياست تو اسي سے 
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسي سے 
اقوام ميں مخلوق خدا بٹتي ہے اس سے 
قوميت اسلام کے جڑ کٹتي ہے اس سے 

  

No comments:

Post a Comment