Friday, December 2, 2011

جہاد کا صحیح اسلامی تصور


اسلام میں جہاد کا کیا معنی ہے ؟ 
جہاد کا لفظ قران میں وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے اور قرانی اصطلاح میں اللہ کے دین کی سر بلندی کے جذبے ، نیت اور ارادے سے کی جانے والی دعوتی تحریری،زبانی ، قانونی آئینی معاشی سیاسی علمی اصلاحی تحریکی اور جہادی کوشش "جہاد" ہے۔اور اس کا آخری درجہ اللہ کے لیے اپنی جان قربان کر دینا یعنی قتال فی سبیل اللہ ے۔قران مجید نے "جہاد" کی اسطلاح اسی وسیع منی میں استعمال کی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے 
فلا تطع الكافرين وجاهدهم به جهادا كبيرا 
پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو
سورۃ الفرقان ایت 52 
مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ سورت مکی ہے۔اس آیت میں "ہ" ضمیر قران کی لوٹ رہی ہے ۔ جمہور مفسرین حضرت عبداللہ بن عباس جلیل القدر تابعی مقاتل بن حیان ، امام جریر طبری ، امام قرطبی ، امام بغوی ، امام بیضاوی ،امام ابن تیمیہ ، علامہ ابن جوزی ،علامہ آلوسی علامہ زمخشری ، علامہ ابن عاشورا مالکی ، سید قطب شہید ،علامہ ابو بکر الجزائری اور ڈاکٹر اسرار احمد نے آیت میں مذکور "ہ" ضمیر سے مراد قران لیا ہے۔جبکہ بعض مفسرین مثلا امام رازی ، ابن عادل حنبلی ،امام بقاعی وغیرہ نے اس ضمیر سے مراد سے اللہ کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ رسالت لیا ہے جبکہ بعض نے اس ضمیر سے مراد اسلام لیا ہے ۔ ان مفسرین کی آراء نقل کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آئمہ سلف کے نذدیک اس آیت میں جہاد سے مراد قتل نہیں ہے ، بلکہ یہ لفط یہاں اپنی صلاحیتیں کھپانے اور کوشش کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
احادیث میں بھی جہاد کی اصطلاح انہی وسیع معنوں میں استعمال ہوئی ہے ۔ ایک روایت کہ الفاظ ہیں 
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مجھ سے پہلے اللہ کسی قوم میں اللہ تعالی نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کہ حواری اور ایسے ساتھی نہ ہوں جو اس کے طریقے کے مطابق چلتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے ۔ پھر اس کے بعد کچح نہ خلف قسم کے لوگ ان کے جانشین بنتے تھے جو ایسی باتیں کہتے تھے کہ جن پر خود عمل نہیں کرتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے جس پر کرنے کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا۔پس جس نے ان کے ساتھ اپنے ہاتھ سے جہاد کیا وہ مومن اور جس نے اپنی زبان سے جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے اپنے دل سے جہاد کیا وہ مومن ہے۔اور اس کے بعد تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔{مسلم}۔
ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:۔
مشرکین کے ساتھ اپنی جانوں ، اپنے مالوں اور اپنی زبانوں سے جہاد کرو {سنن ابی داود }۔
پس جہاد کا معنی صرف قتال نہیں ہے جیسا کہ یہ غلط فہمی بہت عام ہو چکی ہے ۔ البتہ قتال "جہاد" کی ایک بلند ترین صورت ضرور ہے ۔ جہاد سے مراد اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے کی جانے والی ہر قسم کی جدوجہد اور کوشش ہے ۔جہاد کی کم از کم ۴ اقسام ہیں جن کو شیخ ابو بکر الجزائری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف "منہاج ال مسلم " میں گنوایا ہے  جس کی تفسیل کتاب ھذا میں دیکھی جا سکتی ہے ۔


No comments:

Post a Comment