Sunday, December 11, 2011

اطاعت اور فطرتِ انسانی - مختار حسین فاروقی

اطاعت اور فطرت انسانی - مختار حسین فاروقی 
شاید آدمی یہ شمجھ بیٹھا ہے یا بے دین لوگوں کی طرف سے یہ تصور دانستہ عام کیا گیا ہے کہ ہم تو "آزاد" لوگ ہیں جو کس دوسرے کی اطاعت نہیں کرتے اور یہ جو لوگ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں یہ لوگ پاپند ہیں اور بہت سارے قاعدوں اور ضابطوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
 حقیقت میں شاید ایسا نہیں ہے ۔ اور کلیّتہً "آزاد" تو دنیا میں کوئی مخلوق نہیں ہے جمادات و نباتات تو پورے طور پر فطر قوانین کے پاپند ہیں،,حیوان بھی جو زندگی کے مقابلتہً ونچے درجے پر فائز ہیں مکمل طور پر خالقِ کائنات کے پہلے سے طے شدہ ضابطے اور قانون کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔حیوانات کا کھانا، پینا ، رہنا ، سہنا م غرض یہ کہ ہر ہر فعل ان کی جبلت کے تابع ہوتا ہے ۔۔۔۔ رہا انسان جو اشرف المخلوقات ہے تو اسے اللہ نے چونکہ اپنا خلیفہ بنایا ہے لہذا جہاں ایک طرف حضرت انسان اللہ تعالٰی کے طے شدہ بہت س ظابطوں کا پاپند ہے اور اُن سے {اپنے سے کم تر مخلوْ کی طرح} سرِ مو انحراف نہیں کر سکتا وہاں یہ ابن آدم تھوڑی سی "آزادی" بھی رکھتا ہے اور اُسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اپنی مرضی سے {زندگی کی    شاہراہ پر } چاہے تو اسلام اور ایمان کی زندگی اختیار کرلے اور چاہے تو کفر اور تکذیب کی روش اختیار کرلے۔  
اسلام میں داخل ہوکر بندہ تو اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا پاپند ہو ہی جاتا ہے "کفر" کی زندگی گزارنے والا شخص بھی کلیتہً "آزادی" کی زندگی نہیں گزارتا بلکہ نظریات  و افکار و اعمال کی پیروی پر ارادتاً اور برائی کی طرف میلان کی وجہ سے دباو کے تحت بھی مجبور نظر آتا ہے ۔ چناچہ ایسا انسان سماجی دباو ، معاشرتی رسوم و رواج اور اجتمائی قومی حالات کے تحت زندگی گزارنے کے علاوہ کوئی چارہ نہی پاتا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ فطرت انسانی میں اپنی مرضی کو دبا کر کسی اور اعلٰی طر ہسیت کی حکم بر آری کرنا شامل ہے۔فرق صرف یہ رہے گا کہ مسلمان اپنی آزاد مرضی کو اپنے خالق اور رب کے قدموں اور چرنوں میں لا کر ڈال دیتا ہے اور اس کی اطاعت کے جذبے سے سرشار ہوکر "إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ" کا نغمہ الاپتا ہے اور کافر و مشرک ، پتھر کی مورتیوں ، نفسیانی خواہشوں اور اپنے ہی جیسے بعض  دوسرے مجبور و محکوم بندوں کی اطاعت گزاری اور غلامی اختیار کرلیتا ہے۔ کسی ہوشمند اور غیر جانبدار شخص کے لیے فیصلہ زیادہ مشکل نہیں ہے کہ کون حقیقت سے زیادہ قریب ہے اور کون فطرت انسانی کو مسخ کرنے کی پاداش میں اس سے کوسوں دور اور قران مجی کے الفاظ میں "ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا" کا مصداق ہے ۔ نتیجتاً انسان خواہی نہ خواہی کسی کی اطاعت کر رہا ہے ۔ لیکن اس سوال کا جواب ، کہ آیا وہ اطاعت صرف دنیاوی زندگی اور یہیں کے مفادات تک محدود ہے جسے قران مجید الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا" کہتا ہے یا اس کے ثمرات حیات بعد الممات میں بھی خوشگوار ہوں گے، اس بات پر مخصر ہے کہ انسان کا نصب العین اور مقصدِ زندگی کیا ہے ؟ مقصد اگر صرف شکم پوری اور تن پروری ہے یا دنیاوی مفادات جمع کرنا ہے اور آرام و آسائش کے ساتھ زندگی گزارنا ہے تو انسان ایک مخصوص قسم کے نظامِ اطاعت کے حوالے ہوجائے گا جو اپنے نفسانی خواہشات کے اتباع سے شروع ہوگا۔ جسے قران مجید نے "اپنے نفس کو اپنا معبود بنا لینا" قرار دیتا ہے ، اور ہم درہم و دینار کی بندگی سے ہوتا ہوا شرک پر ختم ہوگا، جس میں انسان کے لیے بے اطمینانی ، بے چینی ، کرب و الم اور بالآخر "عذابِ شدید" کے سوا اور کچھ نہیں۔
اور۔۔۔۔اگر مقصد اپنے خالق و مالک کو پہچاننا اور اس کی رضا اور خوشنودی ہے تو زندگی میں ترجیحات بلکل دوسری ہوں گی اور انجام بھی بلکل مختلف۔ یہی راستہ ہمارے دینِ اسلام کا راستہ ہے اور اسی راہ کے ہم سب مسافر ہیں ۔ یہی راستہ انقلاب آفریں بھی ہے اور حیات بخش بھی۔

{شایہ شدہ ماہنامہ میثاق نومبر ۱۹۸۸}

No comments:

Post a Comment