Saturday, December 10, 2011

ایک تاریخی شادی


سعید بن مسیب ؒ ایک جلیل القدر تابعی گزرے ہیں۔ مشہور حافظ حدیث صحابی حضرت ابوہریرہؓ کے داماد تھے۔ سعید بن مسیب کی ایک بیٹی تھی، جو نہایت خوبصورت خوب سیرت، کتاب اللہ کی حافظہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی عالمہ تھی۔ اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اپنے بیٹے ولید کے لیے اس کا رشتہ مانگا لیکن آپؒ نے انکار کردیا۔ اس انکار کی و جہ سے سعید ابن مسیبؒ کو سخت سختیاں جھیلنی پڑی۔
اب سعید بن مسیبؒ اپنی بیٹی کے رشتے کے لیے فکر مند ہوگئے اور سوچنا شروع کیا کہ جیسے ہی کوئی مناسب رشتہ ملے تو لڑکی کا عقد کروں گا۔ ان دنوں ان کے درس میں باقاعدگی سے حاضر ہونے والا شاگرد ابو وداعہ غیرحاضر تھا۔ آپؒ کے دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہو رہے تھے کہ نہ معلوم بیچارے کو کوئی حادثہ پیش آگیا یا بیمار ہے۔ تین دن کے بعد شاگرد درس میں نظر آیا، لیکن وہ پریشان اور غم زدہ تھا۔ دریافت کیا ’’بھائی تین دن کہاں تھے؟‘‘ اس نے کہا، حضرت! میری بیوی وفات پاگئیں تھی، میں اس کی تجہیز و تکفین میں مصروف رہا۔ لوگ تعزیت کے لیے آرہے تھے، اس لیے حاضر نہ ہوسکا۔ تین دن شرعی تعزیت پوری کرکے آگیا۔ دریافت فرمایا: ’’اب کیا ارادے ہیں؟‘‘ دوسری شادی کرو گے؟ طالب علم نے جواب دیا۔ حضرت! مجھ فقیر، قلاش اور مفلوک الحال آدمی کو بھلا کون رشتہ دے گا؟ دن بھر پڑھائی کرتا ہوں، رات میں مزدوری کرتا ہوں۔ طالب علم یہ کہہ رہا تھا تو سعید بن مسیبؒ کے ذہن میں اپنی اکلوتی عالمہ فاضلہ حسین و جمیل اور نہایت صالح بیٹی کا تصور گردش کر رہا تھا۔ آپؒ اس طالب علم کو اچھی طرح جانتے تھے اور یہ تقویٰ کی اس معیار پر پورا اترتے تھے جو وہ چاہتے تھے۔ طالب علم کو مخاطب ہوکر فرمایا: میری بیٹی سے شادی کرو گے؟طالب علم بھونچکا ہوگیا، کہا ، حضرت کیا یہ ممکن ہے؟ فرمایا کہ ’’ہاں‘‘۔ پھرطلبہ کو جمع کیا۔ ایجاب و قبول ہوا اور نکاح ہوگیا۔
ابووداعہ کو خوشی تو ہوئی لیکن اب رخصتی کے لیے پریشان تھا کہ قرض وغیرہ کہاں سے حاصل کروں۔ دن بھر روزہ رکھ کر شام کو افطار کیا، تو دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ پوچھا، کون ہے؟ آواز آئی سعید۔ ابووداعہ کہتے ہیں میں نے سعید بن مسیبؒ کو چھوڑ کر اس نام کے ہر شخص کا تصور کیا، کیونکہ سعید بن مسیبؒ تو چالیس برس سے اپنے گھر اور مسجد کے علاوہ کہیں نہیں گئے۔ اٹھ کر دروازہ کھولا تو وہاں سعید بن مسیبؒ کھڑے تھے۔میں نے کہا: اے ابو محمد (سعید کی کنیت) آپ نے کیوں زحمت فرمائی، مجھے بلا بھیجا ہوتا۔ انہوں نے کہا: مجھے خیال آیا کہ تم اپنے گھر میں تنہا ہو گے، حالانکہ اب تو تمہاری شادی ہوچکی ہے۔ مجھے گوارا نہیں ہوا کہ تم تنہا رات بسر کرو اور یہ ہے تمہاری بیوی، اس کو میں ساتھ لایا ہوں۔ انہوں نے اپنی صاحبزادی کو دروازے کے اندر کیا اور واپس چلے گئے۔ یہ تھی وہ اسلامی شادی، نہ رسم مہندی، نہ جہیز، نہ کوئی ہنگامہ۔ مومنوں کی بیٹیاں اسی طرح بیاہی جاتی ہیں کیونکہ شادی کے لیے معیار تقویٰ ہے۔

No comments:

Post a Comment