Saturday, December 24, 2011

دل کی لگن - مولانا سید ابو ال اعلٰی مودودی


دل کی لگن - مولانا سید ابو الا علٰی مودودی 

مجاہدہ فی سبیل اللہ کے لیے ایک صفت دل کی لگن ہے۔ محض دماغی طور پر ہی کسی   شخص کا تحریک کو سمجھ لینا اور اس پر صرف عقلاً مطمئن ہوجانا، یہ اس راہ میں اقدام کے لیے صرف ایک ابتدائی قدم ہے۔ لیکن اتنے سے تاثر سے کام نہیں چل سکتا ۔ یہاں تو اس کی ضرورت ہے کہ دل میں ایک آگ بھڑک اُٹھے ۔ زیادہ نہیں تو کم از کم اتنی آگ تو شعلہ زن ہونی چاہیے ، جتنی اپنے بچے کو بیمار دیکھ کر ہوجاتی ہے ، اور  آپ کو کھینچ کر ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہے ۔ یا اتنی جتنی گھر میں غلہ نہ پا کر بھڑکتی ہے اور آدمی کو تگ و دو میں مجبور کردیتی ہے اور چین سے نہیں بیٹھنے دیتی ۔ سینوں میں وہ جزبہ ہونا چاہیے جو ہر وقت آپ کو اپنے نصب العین کی دُھن میں لگائے رکھے ، دل و دماغ کو یکسو کردے اور توجہات کو اس کام پر مرکوز کردے کہ اگر ذاتی یا خانگی یا دوسرے غیر مطعلق معاملات کبھی آپ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچیں بھی تو آپ سخت نا گواری سے ان کی طرگ کھنچیں۔ کوشش کیجئے کہ اپنی ذات کے لیے قوت اور وقت کا کم سے کم حصہ صرف کریں اور آپ کی زیادہ سے زیادہ جدو جہد اپنے مقصدِ حیات کے لیے ہو ۔ جب تک دل کی لگن نہ ہوگی اور آپ ہمہ تن اپنے آپ کو اس کام میں نہ چھونک دیں گے ، محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہ بنے گا ۔ بیشتر لوگ دماغی طورہمارا ساتھ دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں لیکن کم لوگ ایسے ملتے ہیں جو دل کی لگن کے ساتھ تن من دھن سے اس کام میں شریک ہوں ۔۔۔۔۔ 
جہاں دل کی لگن ہوتی ہے وہاں کسی ٹھیلنے اور اکسانے والے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ اس قوت کے ہوتے ہوئے یہ صورتِ حال کبھی پیدا نہیں ہوسکتی کہ اگر کہیں جماعت کا ایک رکن پیچھے ہٹ گیا یا نقلِ مقام پر مجبور ہوگیا تو وہاں کا سارا کام جوپت ہوگیا۔ بخلاف اس کے ہر شخص اس طرح کام کرے گا جس طرح وہ اپنے بچے کو بیمار پا کر کرتا ہے۔

{مولانا سید ابو ال اعلٰی مودودی رحمتہ اللہ علیہ}

No comments:

Post a Comment