Tuesday, December 20, 2011

Iblees ki Majlis e Shoora





ابليس

يہ عناصر کا پرانا کھيل، يہ دنيائے دوں 
ساکنان عرش اعظم کي تمناؤں کا خوںاس کي بربادي پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز 
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں 
ميں نے دکھلايا فرنگي کو ملوکيت کا خواب 
ميں نے توڑا مسجد و دير و کليسا کا فسوں 
ميں نے ناداروں کو سکھلايا سبق تقدير کا 
ميں نے منعم کو ديا سرمايہ داري کا جنوں 
کون کر سکتا ہے اس کي آتش سوزاں کو سرد 
جس کے ہنگاموں ميں ہو ابليس کا سوز دروں 
جس کي شاخيں ہوں ہماري آبياري سے بلند 
کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں!
 
پہلا مشير

اس ميں کيا شک ہے کہ محکم ہے يہ ابليسي نظام 
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامي ميں عوام 
ہے ازل سے ان غريبوں کے مقدر ميں سجود 
ان کي فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قيام 
آرزو اول تو پيدا ہو نہيں سکتي کہيں 
ہو کہيں پيدا تو مر جاتي ہے يا رہتي ہے خام 
يہ ہماري سعي پيہم کي کرامت ہے کہ آج 
صوفي و ملا ملوکيت کے بندے ہيں تمام 
طبع مشرق کے ليے موزوں يہي افيون تھي 
ورنہ 'قوالي' سے کچھ کم تر نہيں 'علم کلام'! ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقي تو کيا 
کند ہو کر رہ گئي مومن کي تيغ بے نيام 
کس کي نوميدي پہ حجت ہے يہ فرمان جديد؟ 
'
ہے جہاد اس دور ميں مرد مسلماں پر حرام!
 
دوسرا مشير

خير ہے سلطاني جمہور کا غوغا کہ شر 
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہيں ہے با خبر!
 
پہلا مشير

ہوں، مگر ميري جہاں بيني بتاتي ہے مجھے 
جو ملوکيت کا اک پردہ ہو، کيا اس سے خطرہم نے خود شاہي کو پہنايا ہے جمہوري لباس 
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر 
کاروبار شہرياري کي حقيقت اور ہے 
يہ وجود مير و سلطاں پر نہيں ہے منحصر 
مجلس ملت ہو يا پرويز کا دربار ہو 
ہے وہ سلطاں، غير کي کھيتي پہ ہو جس کي نظر 
تو نے کيا ديکھا نہيں مغرب کا جمہوري نظام 
چہرہ روشن، اندروں چنگيز سے تاريک تر!
 
تيسرا مشير

روح سلطاني رہے باقي تو پھر کيا اضطراب 
ہے مگر کيا اس يہودي کي شرارت کا جواب؟ 
وہ کليم بے تجلي، وہ مسيح بے صليب 
نيست پيغمبر و ليکن در بغل دارد کتاب 
کيا بتاؤں کيا ہے کافر کي نگاہ پردہ سوز 
مشرق و مغرب کي قوموں کے ليے روز حساب!اس سے بڑھ کر اور کيا ہوگا طبيعت کا فساد 
توڑ دي بندوں نے آقاؤں کے خيموں کي طناب!
 
چوتھا مشير

توڑ اس کا رومہ الکبرے کے ايوانوں ميں ديکھ 
آل سيزر کو دکھايا ہم نے پھر سيزر کا خواب 
کون بحر روم کي موجوں سے ہے لپٹا ہوا 
'
گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب،
 
تيسرا مشير

ميں تو اس کي عاقبت بيني کا کچھ قائل نہيں 
جس نے افرنگي سياست کو کيا يوں بے حجاب
 
پانچواں مشير 
(ابليس کو مخاطب کرکے(
 
اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوارتو نے جب چاہا، کيا ہر پردگي کو آشکار 
آب و گل تيري حرارت سے جہان سوز و ساز 
ابلہ جنت تري تعليم سے دانائے کار 
تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہيں 
سادہ دل بندوں ميں جو مشہور ہے پروردگار 
کام تھا جن کا فقط تقديس و تسبيح و طواف 
تيري غيرت سے ابد تک سرنگون و شرمسار 
گرچہ ہيں تيرے مريد افرنگ کے ساحر تمام 
اب مجھے ان کي فراست پر نہيں ہے اعتبار 
وہ يہودي فتنہ گر، وہ روح مزدک کا بروز 
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار 
زاغ دشتي ہو رہا ہے ہمسر شاہين و چرغ 
کتني سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار 
چھا گئي آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر 
جس کو ناداني سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار 
فتنہء فردا کي ہيبت کا يہ عالم ہے کہ آج 
کانپتے ہيں کوہسار و مرغزار و جوئبار 
ميرے آقا! وہ جہاں زير و زبر ہونے کو ہے 
جس جہاں کا ہے فقط تيري سيادت پر مدار
 
ابليس 
(اپنے مشيروں سے(

ہے مرے دست تصرف ميں جہان رنگ و بو 
کيا زميں، کيا مہر و مہ، کيا آسمان تو بتو 
ديکھ ليں گے اپني آنکھوں سے تماشا غرب و شرق 
ميں نے جب گرما ديا اقوام يورپ کا لہو 
کيا امامان سياست، کيا کليسا کے شيوخ 
سب کو ديوانہ بنا سکتي ہے ميري ايک ہو 
کارگاہ شيشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے 
توڑ کر ديکھے تو اس تہذيب کے جام و سبودست فطرت نے کيا ہے جن گريبانوں کو چاک 
مزدکي منطق کي سوزن سے نہيں ہوتے رفو 
کب ڈرا سکتے ہيں مجھ کو اشتراکي کوچہ گرد 
يہ پريشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو 
ہے اگر مجھ کو خطر کوئي تو اس امت سے ہے 
جس کي خاکستر ميں ہے اب تک شرار آرزو 
خال خال اس قوم ميں اب تک نظر آتے ہيں وہ 
کرتے ہيں اشک سحر گاہي سے جو ظالم وضو 
جانتا ہے، جس پہ روشن باطن ايام ہے 
مزدکيت فتنہ فردا نہيں، اسلام ہے!
 
(2)

جانتا ہوں ميں يہ امت حامل قرآں نہيں 
ہے وہي سرمايہ داري بندہ مومن کا ديں 
جانتا ہوں ميں کہ مشرق کي اندھيري رات ميں 
بے يد بيضا ہے پيران حرم کي آستيں 
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے ليکن يہ خوف 
ہو نہ جائے آشکارا شرع پيغمبر کہيں 
الحذرآئين پيغمبر سے سو بار الحذر 
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفريں 
موت کا پيغام ہر نوع غلامي کے ليے 
نے کوئي فغفور و خاقاں، نے فقير رہ نشيں 
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگي سے پاک صاف 
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے اميں 
اس سے بڑھ کر اور کيا فکر و عمل کا انقلاب 
پادشاہوں کي نہيں، اللہ کي ہے يہ زميںچشم عالم سے رہے پوشيدہ يہ آئيں تو خوب 
يہ غنيمت ہے کہ خود مومن ہے محروم يقيں 
ہے يہي بہتر الہيات ميں الجھا رہے 
يہ کتاب اللہ کي تاويلات ميں الجھا رہے
 
(3)

توڑ ڈاليں جس کي تکبيريں طلسم شش جہات 
ہو نہ روشن اس خدا انديش کي تاريک رات 
ابن مريم مر گيا يا زندہ جاويد ہے 
ہيں صفات ذات حق، حق سے جدا يا عين ذات؟ 
آنے والے سے مسيح ناصري مقصود ہے 
يا مجدد، جس ميں ہوں فرزند مريم کے صفات؟ 
ہيں کلام اللہ کے الفاظ حادث يا قديم 
امت مرحوم کي ہے کس عقيدے ميں نجات؟ 
کيا مسلماں کے ليے کافي نہيں اس دور ميں 
يہ الہيات کے ترشے ہوئے لات و منات؟ 
تم اسے بيگانہ رکھو عالم کردار سے 
تا بساط زندگي ميں اس کے سب مہرے ہوں مات 
خير اسي ميں ہے، قيامت تک رہے مومن غلام 
چھوڑ کر اوروں کي خاطر يہ جہان بے ثبات 
ہے وہي شعر و تصوف اس کے حق ميں خوب تر
جو چھپا دے اس کي آنکھوں سے تماشائے حيات 
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کي بيداري سے ميں 
ہے حقيقت جس کے ديں کي احتساب کائنات 
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہي ميں اسے 
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہي ميں اسے
 

 Explanation of The Above by Dr Israr Ahmed
Video




Explanation of The Above by Dr Israr Ahmed 
Text


Interview of the Wife of Late Dr Israr Ahmed


Abdullah b. 'Amr reported Allah's Messenger as saying: The whole world is a provision, and the best object of benefit of the world is the pious woman.(Reported by Imam Muslim)

Read the Life interview of the wife of leading Islamic Scholars of the Era Dr Israr Ahmed
The Sacrifices his wife made that enabled him to be the person he could
how she helped him in the matters of Deen by not complaining for not having enough of the worldly assets.
An Interview with the wife of Dr Israr Ahmed
File Can also be downloaded from the following link

Monday, December 12, 2011

نظریہ وطنیت اور اقبال


ترانہ ملی - علامہ محمد اقبال 

چين و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا 
مسلم ہيں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا 

توحيد کي امانت سينوں ميں ہے ہمارے 

آساں نہيں مٹانا نام و نشاں ہمارا 

دنيا کے بت کدوں ميں پہلا وہ گھر خدا کا 
ہم اس کے پاسباں ہيں، وہ پاسباں ہمارا 
تيغوں کے سائے ميں ہم پل کر جواں ہوئے ہيں 
خنجر ہلال کا ہے قومي نشاں ہمارا 
مغرب کي واديوں ميں گونجي اذاں ہماري 
تھمتا نہ تھا کسي سے سيل رواں ہمارا 
باطل سے دنبے والے اے آسماں نہيں ہم 
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا 
اے گلستان اندلس! وہ دن ہيں ياد تجھ کو 
تھا تيري ڈاليوں پر جب آشياں ہمارا 
اے موج دجلہ! تو بھي پہچانتي ہے ہم کو 
اب تک ہے تيرا دريا افسانہ خواں ہمارا 
اے ارض پاک! تيري حرمت پہ کٹ مرے ہم 
ہے خوں تري رگوں ميں اب تک رواں ہمارا 
سالار کارواں ہے مير حجاز اپنا 
اس نام سے ہے باقي آرام جاں ہمارا 
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گويا 
ہوتا ہے جادہ پيما پھر کارواں ہمارا 


وطنیت - علامہ محمد اقبال 

اس دور ميں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور 

ساقي نے بنا کي روش لطف و ستم اور 

مسلم نے بھي تعمير کيا اپنا حرم اور 

تہذيب کے آزر نے ترشوائے صنم اور 
ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے 
جو پيرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے 
يہ بت کہ تراشيدہء تہذيب نوي ہے 
غارت گر کاشانہء دين نبوي ہے 
بازو ترا توحيد کي قوت سے قوي ہے 
اسلام ترا ديس ہے ، تو مصطفوي ہے 
نظارہ ديرينہ زمانے کو دکھا دے 
اے مصطفوي خاک ميں اس بت کو ملا دے ! 
ہو قيد مقامي تو نتيجہ ہے تباہي 
رہ بحر ميں آزاد وطن صورت ماہي 
ہے ترک وطن سنت محبوب الہي 
دے تو بھي نبوت کي صداقت پہ گواہي 
گفتار سياست ميں وطن اور ہي کچھ ہے 
ارشاد نبوت ميں وطن اور ہي کچھ ہے 
اقوام جہاں ميں ہے رقابت تو اسي سے 
تسخير ہے مقصود تجارت تو اسي سے 
خالي ہے صداقت سے سياست تو اسي سے 
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسي سے 
اقوام ميں مخلوق خدا بٹتي ہے اس سے 
قوميت اسلام کے جڑ کٹتي ہے اس سے 

  

Sunday, December 11, 2011

اطاعت اور فطرتِ انسانی - مختار حسین فاروقی

اطاعت اور فطرت انسانی - مختار حسین فاروقی 
شاید آدمی یہ شمجھ بیٹھا ہے یا بے دین لوگوں کی طرف سے یہ تصور دانستہ عام کیا گیا ہے کہ ہم تو "آزاد" لوگ ہیں جو کس دوسرے کی اطاعت نہیں کرتے اور یہ جو لوگ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں یہ لوگ پاپند ہیں اور بہت سارے قاعدوں اور ضابطوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
 حقیقت میں شاید ایسا نہیں ہے ۔ اور کلیّتہً "آزاد" تو دنیا میں کوئی مخلوق نہیں ہے جمادات و نباتات تو پورے طور پر فطر قوانین کے پاپند ہیں،,حیوان بھی جو زندگی کے مقابلتہً ونچے درجے پر فائز ہیں مکمل طور پر خالقِ کائنات کے پہلے سے طے شدہ ضابطے اور قانون کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔حیوانات کا کھانا، پینا ، رہنا ، سہنا م غرض یہ کہ ہر ہر فعل ان کی جبلت کے تابع ہوتا ہے ۔۔۔۔ رہا انسان جو اشرف المخلوقات ہے تو اسے اللہ نے چونکہ اپنا خلیفہ بنایا ہے لہذا جہاں ایک طرف حضرت انسان اللہ تعالٰی کے طے شدہ بہت س ظابطوں کا پاپند ہے اور اُن سے {اپنے سے کم تر مخلوْ کی طرح} سرِ مو انحراف نہیں کر سکتا وہاں یہ ابن آدم تھوڑی سی "آزادی" بھی رکھتا ہے اور اُسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اپنی مرضی سے {زندگی کی    شاہراہ پر } چاہے تو اسلام اور ایمان کی زندگی اختیار کرلے اور چاہے تو کفر اور تکذیب کی روش اختیار کرلے۔  
اسلام میں داخل ہوکر بندہ تو اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا پاپند ہو ہی جاتا ہے "کفر" کی زندگی گزارنے والا شخص بھی کلیتہً "آزادی" کی زندگی نہیں گزارتا بلکہ نظریات  و افکار و اعمال کی پیروی پر ارادتاً اور برائی کی طرف میلان کی وجہ سے دباو کے تحت بھی مجبور نظر آتا ہے ۔ چناچہ ایسا انسان سماجی دباو ، معاشرتی رسوم و رواج اور اجتمائی قومی حالات کے تحت زندگی گزارنے کے علاوہ کوئی چارہ نہی پاتا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ فطرت انسانی میں اپنی مرضی کو دبا کر کسی اور اعلٰی طر ہسیت کی حکم بر آری کرنا شامل ہے۔فرق صرف یہ رہے گا کہ مسلمان اپنی آزاد مرضی کو اپنے خالق اور رب کے قدموں اور چرنوں میں لا کر ڈال دیتا ہے اور اس کی اطاعت کے جذبے سے سرشار ہوکر "إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ" کا نغمہ الاپتا ہے اور کافر و مشرک ، پتھر کی مورتیوں ، نفسیانی خواہشوں اور اپنے ہی جیسے بعض  دوسرے مجبور و محکوم بندوں کی اطاعت گزاری اور غلامی اختیار کرلیتا ہے۔ کسی ہوشمند اور غیر جانبدار شخص کے لیے فیصلہ زیادہ مشکل نہیں ہے کہ کون حقیقت سے زیادہ قریب ہے اور کون فطرت انسانی کو مسخ کرنے کی پاداش میں اس سے کوسوں دور اور قران مجی کے الفاظ میں "ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا" کا مصداق ہے ۔ نتیجتاً انسان خواہی نہ خواہی کسی کی اطاعت کر رہا ہے ۔ لیکن اس سوال کا جواب ، کہ آیا وہ اطاعت صرف دنیاوی زندگی اور یہیں کے مفادات تک محدود ہے جسے قران مجید الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا" کہتا ہے یا اس کے ثمرات حیات بعد الممات میں بھی خوشگوار ہوں گے، اس بات پر مخصر ہے کہ انسان کا نصب العین اور مقصدِ زندگی کیا ہے ؟ مقصد اگر صرف شکم پوری اور تن پروری ہے یا دنیاوی مفادات جمع کرنا ہے اور آرام و آسائش کے ساتھ زندگی گزارنا ہے تو انسان ایک مخصوص قسم کے نظامِ اطاعت کے حوالے ہوجائے گا جو اپنے نفسانی خواہشات کے اتباع سے شروع ہوگا۔ جسے قران مجید نے "اپنے نفس کو اپنا معبود بنا لینا" قرار دیتا ہے ، اور ہم درہم و دینار کی بندگی سے ہوتا ہوا شرک پر ختم ہوگا، جس میں انسان کے لیے بے اطمینانی ، بے چینی ، کرب و الم اور بالآخر "عذابِ شدید" کے سوا اور کچھ نہیں۔
اور۔۔۔۔اگر مقصد اپنے خالق و مالک کو پہچاننا اور اس کی رضا اور خوشنودی ہے تو زندگی میں ترجیحات بلکل دوسری ہوں گی اور انجام بھی بلکل مختلف۔ یہی راستہ ہمارے دینِ اسلام کا راستہ ہے اور اسی راہ کے ہم سب مسافر ہیں ۔ یہی راستہ انقلاب آفریں بھی ہے اور حیات بخش بھی۔

{شایہ شدہ ماہنامہ میثاق نومبر ۱۹۸۸}

Saturday, December 10, 2011

ایک تاریخی شادی


سعید بن مسیب ؒ ایک جلیل القدر تابعی گزرے ہیں۔ مشہور حافظ حدیث صحابی حضرت ابوہریرہؓ کے داماد تھے۔ سعید بن مسیب کی ایک بیٹی تھی، جو نہایت خوبصورت خوب سیرت، کتاب اللہ کی حافظہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی عالمہ تھی۔ اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اپنے بیٹے ولید کے لیے اس کا رشتہ مانگا لیکن آپؒ نے انکار کردیا۔ اس انکار کی و جہ سے سعید ابن مسیبؒ کو سخت سختیاں جھیلنی پڑی۔
اب سعید بن مسیبؒ اپنی بیٹی کے رشتے کے لیے فکر مند ہوگئے اور سوچنا شروع کیا کہ جیسے ہی کوئی مناسب رشتہ ملے تو لڑکی کا عقد کروں گا۔ ان دنوں ان کے درس میں باقاعدگی سے حاضر ہونے والا شاگرد ابو وداعہ غیرحاضر تھا۔ آپؒ کے دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا ہو رہے تھے کہ نہ معلوم بیچارے کو کوئی حادثہ پیش آگیا یا بیمار ہے۔ تین دن کے بعد شاگرد درس میں نظر آیا، لیکن وہ پریشان اور غم زدہ تھا۔ دریافت کیا ’’بھائی تین دن کہاں تھے؟‘‘ اس نے کہا، حضرت! میری بیوی وفات پاگئیں تھی، میں اس کی تجہیز و تکفین میں مصروف رہا۔ لوگ تعزیت کے لیے آرہے تھے، اس لیے حاضر نہ ہوسکا۔ تین دن شرعی تعزیت پوری کرکے آگیا۔ دریافت فرمایا: ’’اب کیا ارادے ہیں؟‘‘ دوسری شادی کرو گے؟ طالب علم نے جواب دیا۔ حضرت! مجھ فقیر، قلاش اور مفلوک الحال آدمی کو بھلا کون رشتہ دے گا؟ دن بھر پڑھائی کرتا ہوں، رات میں مزدوری کرتا ہوں۔ طالب علم یہ کہہ رہا تھا تو سعید بن مسیبؒ کے ذہن میں اپنی اکلوتی عالمہ فاضلہ حسین و جمیل اور نہایت صالح بیٹی کا تصور گردش کر رہا تھا۔ آپؒ اس طالب علم کو اچھی طرح جانتے تھے اور یہ تقویٰ کی اس معیار پر پورا اترتے تھے جو وہ چاہتے تھے۔ طالب علم کو مخاطب ہوکر فرمایا: میری بیٹی سے شادی کرو گے؟طالب علم بھونچکا ہوگیا، کہا ، حضرت کیا یہ ممکن ہے؟ فرمایا کہ ’’ہاں‘‘۔ پھرطلبہ کو جمع کیا۔ ایجاب و قبول ہوا اور نکاح ہوگیا۔
ابووداعہ کو خوشی تو ہوئی لیکن اب رخصتی کے لیے پریشان تھا کہ قرض وغیرہ کہاں سے حاصل کروں۔ دن بھر روزہ رکھ کر شام کو افطار کیا، تو دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ پوچھا، کون ہے؟ آواز آئی سعید۔ ابووداعہ کہتے ہیں میں نے سعید بن مسیبؒ کو چھوڑ کر اس نام کے ہر شخص کا تصور کیا، کیونکہ سعید بن مسیبؒ تو چالیس برس سے اپنے گھر اور مسجد کے علاوہ کہیں نہیں گئے۔ اٹھ کر دروازہ کھولا تو وہاں سعید بن مسیبؒ کھڑے تھے۔میں نے کہا: اے ابو محمد (سعید کی کنیت) آپ نے کیوں زحمت فرمائی، مجھے بلا بھیجا ہوتا۔ انہوں نے کہا: مجھے خیال آیا کہ تم اپنے گھر میں تنہا ہو گے، حالانکہ اب تو تمہاری شادی ہوچکی ہے۔ مجھے گوارا نہیں ہوا کہ تم تنہا رات بسر کرو اور یہ ہے تمہاری بیوی، اس کو میں ساتھ لایا ہوں۔ انہوں نے اپنی صاحبزادی کو دروازے کے اندر کیا اور واپس چلے گئے۔ یہ تھی وہ اسلامی شادی، نہ رسم مہندی، نہ جہیز، نہ کوئی ہنگامہ۔ مومنوں کی بیٹیاں اسی طرح بیاہی جاتی ہیں کیونکہ شادی کے لیے معیار تقویٰ ہے۔

Tuesday, December 6, 2011

Qualities of a Religiously Committed Wife


(a)
The Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) encouraged marrying women who are religiously committed, as he said: “Women may be married for four things: their wealth, their lineage, their beauty and their religious commitment. Choose the one who is religiously-committed, may your hands be rubbed with dust (i.e., may your prosper).” Narrated by al-Bukhaari, 5090; Muslim, 1466. 
‘Abd al-‘Azeem Abaadi (may Allaah have mercy on him) said: 
What this means is that a man who is religiously committed and of noble character should make religion his focus in all things, especially with regard to long-term matters. So the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) enjoined finding a wife who is religiously committed, which is the ultimate goal. 
“may your hands be rubbed with dust” is urging him to strive hard and roll up his sleeves and seek that which is enjoined.  
‘Awn al-Ma’bood (6/31). 
(b)
With regard to the attributes of religiously committed women, we may list many attributes which apply to women who are described as religiously committed. These include: 
1.     Sound belief  
This is the most important attribute. The woman who is from ahl al-sunnah wa’l-jamaa’ah will have achieved the highest and most precious characteristic of religiously-committed women, and the one who is a follower of bid’ah (innovation) and misguidance will not be one of the religiously committed women whom the Muslim is encouraged to marry, because of the bad effect that she will have on the husband or children, or on both. 
2.     Obedience to her husband, and not going against him if he enjoins something that is right 
It was narrated that Abu Hurayrah said: It was said to the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him): Which of women is best? He said: “The one who makes (her husband) happy when he looks at her, obeys him when he tells her to do something, and does not disobey him with regard to herself or her wealth in a way that he dislikes.”
Narrated by al-Nasaa’i (3131); classed as saheeh by al-Albaani in Saheeh al-Nasaa’i. 
So the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) mentioned together three important characteristics to be found in the good, righteous wife. They are:
(i)                When he looks at her, he is happy with her religious commitment, attitude, behaviour and appearance.
(ii)              When he is away from her, she protects his honour and his wealth.
(iii)            If he tells her to do something, she obeys him, so long as he does not tell her to commit sin. 
3.     Helping her husband in his faith and religious commitment, telling him to do acts of obedience and stopping him from doing haraam things. 
It was narrated that Thawbaan said: When there was revealed about silver and gold what was revealed, they said: So what kind of wealth should we acquire? ‘Umar said: I will find out about that for you. So he mounted his camel and caught up with the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) and I was right behind him. He said: O Messenger of Allaah, what kind of wealth should we acquire? He said: “Let one of you acquire a thankful heart, a tongue that remembers Allaah and a believing wife who will help him with regard to the Hereafter.” 
Narrated and classed as hasan by al-Tirmidhi (3094). In another version it says: “who will help him with his faith.” Ibn Maajah (1856). Classed as saheeh by al-Albaani in Saheeh al-Tirmidhi.   
Al-Mubaarakfoori (may Allaah have mercy on him) said: 
“A believing wife who will help him with his faith” means, with his religious commitment, by reminding him to pray, fast and do other acts of worship, and will keep him from committing zina and all other haraam deeds. 
Tuhfat al-Ahwadhi (8/390). 
4.     She should be a righteous woman, and among the attributes of the righteous woman is that she is obedient to her Lord and fulfils her husband’s rights with regard to his wealth and herself, even when her husband is absent. 
Allaah says (interpretation of the meaning): 

“Therefore the righteous women are devoutly obedient (to Allaah and to their husbands), and guard in the husband’s absence what Allaah orders them to guard (e.g. their chastity and their husband’s property)”
[al-Nisa’ 4:34]. 
Shaykh ‘Abd al-Rahmaan al-Sa’di (may Allaah have mercy on him) said:  
“Therefore the righteous women are devoutly obedient” means: obedient to Allaah, may He be exalted. 
“guard in the husband’s absence” means: they are obedient to their husbands and even in their absence they guard themselves and their husband’s wealth, seeking the help of Allaah in that, because no one can do that by himself or herself, for the self is inclined towards evil, but the one who puts his trust in Allaah, He will suffice him and help him in his religious and worldly affairs. 
Tafseer al-Sa’di (p. 177) 
It was narrated that Sa’d ibn Abi Waqqaas said: The Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “There are four things that are essential for happiness: a righteous wife, a spacious home, a good neighbour and a sound means of transportation. And there are four things that make one miserable: a bad neighbour, a bad wife, a small house and a bad means of transportation.” 
Narrated by Ibn Hibbaan in al-Saheehah (1232); classed as saheeh by al-Albaani in al-Silsilah al-Saheehah (282) and Saheeh al-Targheeb (1914). 
Shaykh al-Islam Ibn Taymiyah (may Allaah have mercy on him) said:  
A righteous wife will be with her righteous husband for many years, and she is the one who is meant in the hadeeth in which the Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “This world is temporary conveniences and the best of its comforts is a believing wife, who when you look at her she pleases you and if you tell her to do something she obeys you, and if you are away from her she protects you with regard to  herself and your wealth.”
 This is what the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) enjoined when the Muhaajiroon asked him which kind of wealth they should acquire, and he said: “Let one of you acquire a tongue that remembers Allaah, a thankful heart, and a believing wife who will help him with regard to the Hereafter.” Narrated by al-Tirmidhi from Saalim ibn Abi’l-Ja’d, from Thawbaan. 
She may offer the love and compassion that Allaah speaks of in His Book, and the pain of separation may be harder for her than death in some cases, and harder than losing wealth or leaving one’s homeland, especially if one of them is fond of the other or they have children together who will be harmed by separation.  
Majmoo’ al-Fataawa (35/299). 
5.     Good etiquette and knowledge 
It was narrated that Abu Moosa al-Ash’ari said: The Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “There are three who will be given a double reward: a man from among the people of the Book who believed in his Prophet, then lived to see the Prophet (S) and followed him and believed in him– he will have a double reward; and a slave who fulfils his duty towards Allaah and towards his master – he will have a double reward; and a man who had a slave woman whom he fed and fed her well, and taught her and taught her well, then he set her free and married her – he will have a double reward.”
Narrated by al-Bukhaari (97) and Muslim (154). 
Al-Mubaarakfoori (may Allaah have mercy on him) said:
“and taught her” means he taught her good manners. 
“and taught her well” means teaching in a kind manner.  
Tuhfat al-Ahwadhi (4/218). 
6.     Doing acts of worship and obedience, and refraining from haraam things. 
This is part of what being religiously committed means, that is mentioned in the saheeh hadeeth that we quoted at the beginning of our answer. 
Al-Khateeb al-Sharbeeni al-Shaafa’i (may Allaah have mercy on him) said: 
What is meant by religious commitment is acts of obedience and worship, and righteous deeds, and refraining from haraam things. 
Mughni al-Muhtaaj (3/127). 
The one who combines obedience to her Lord, doing the obligatory duties that are enjoined upon her, and avoiding the haraam things that she is forbidden to do, with obedience to her husband, has glad tidings from the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) that she will be highly honoured when she enters Paradise. 
According to the hadeeth: “If a woman prays her five (daily prayers), fasts her month (Ramadaan), guards her chastity and obeys her husband, it will be said to her: Enter Paradise by whichever of the gates of Paradise you wish.” Narrated by Ahmad (1664) and others; classed as hasan by al-Albaani because of another report in Saheeh al-Targheeb, as stated by al-Arna’oot in Takhreej al-Musnad. 
7.     She is a devout worshipper and one who fasts 
Allaah says (interpretation of the meaning): 

“It may be if he divorced you (all) that his Lord will give him instead of you, wives better than you __ Muslims (who submit to Allaah), believers, obedient (to Allaah), turning to Allaah in repentance, worshipping Allaah sincerely, given to fasting or emigrants (for Allaah’s sake), previously married and virgins”
[al-Tahreem 66:5] 
al-Baghawi (may Allaah have mercy on him) said: “will give him instead of you, wives better than you Muslims” means who submit to Allaah and obey Him. 
“believers” who believe in the Oneness of Allaah (Tawheed). 
“obedient (to Allaah)” means obedient, or it was said: who offer supplication (du’aa’), or who pray. 
“given to fasting or emigrants” those who fast often, or Zayd ibn Aslam said: women who migrated (for the sake of Allaah), or it was said, who go with him wherever he goes.  
Tafseer al-Baghawi (8/168). 
Thus it is known that “religious commitment” (deen) is a comprehensive word that includes different kinds of worship, obedience, characteristics and attitudes. It is essential to note that that which we have said of these qualities and deeds is not the same with all women, rather there are different degrees thereof, and that is well known. The more modest, knowledgeable and devoted to worship a woman is, the more desirable she is as a wife. 
Whatever the case, the woman who is religiously committed is the one who will help a man to protect his own religious commitment, and help him with regard to his Hereafter; she will make him happy when he looks at her and she will protect him when he is absent, and she will raise his children well. 
See the answer to question no. 83777 for information on proposing to a girl who is religiously committed but not beautiful; you will find useful information there that is complementary to this answer. 

And Allaah knows best.

Sunday, December 4, 2011

The Future Is For Islam ... Syed Muhammad Qutb


By Shaykh Muhammad Qutb
The Islamic community had been left in ruins. It had been weakened and divided into small nations. The seeds of internal conflict had been planed and nurtured. Every effort had been made to draw society far away from the essence of religion, keeping people in ignorance and luring them with worldly incentives. Attempts to reform within an Islamic framework are still being suppressed. Religious practicing Muslims have become outcasts in their own society.
And yet it was the will of Allah, the Almighty, that this religion would survive - not only survive, but make a comeback. For at the same time that Islam is no longer "fashionable" in Muslim countries, people in the West itself are beginning to discover the truths of Islam which Muslims have neglected. And those who have not yet discovered Islam have at least noticed the great spiritual famine that has taken hold of western culture. They are now seeing before them the failure of the new freedom to bring satisfaction to the human soul. Mankind, in general, is in a state of worry, anxiety and despair. Before him is the failure of present political, social and economic systems to realize justice or to bring peace of mind to the human race. Man longs to believe in a purpose behind existence. He is finally beginning to understand the real need for a belief in God, for nothing else can take place - not a belief of mere words and rituals or of spiritual disciplines that neglect human needs, but a religion which includes every aspect of humanity: the mind, the body and the soul. And there is only one religion on earth that includes and satisfies all of these... Islam.
In spite of the obvious difficulties which appear to us now, the obstacles will lessen as more and more people seek an improvement and turn back to reason and to God. And this time, when men awaken and search, they will find Islam.
How long will this take? It is not important. The reward for those who work towards that end is guaranteed by Him who created the heavens and the earth, and the result is in His hands. By the will Allah, Islam has survived its darkest hour. And by His will, it can again spread its light to every corner of the earth.
"And Allah will give victory to those who support Him. Certainly is Allah exalted in strength and in power." [Surah al-Hajj 22:30]

عبادت کا مفہوم - سید ابو ال اعلی مودودی

خدا کی عبادت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ بس پانچ وقت اُس کے آگے سجدہ کرلو ۔بلکہ اس عبادت کے معنی یہ ہیں کہ رات دن بھر میں ہر وقت اس کے احکام کی اطاعت کرو جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس سے رُک جاو ۔ جس چیز کا اُس نے حکم دیا ہے اُس پر عمل کرو ۔ ہر معاملہ میں یہ دیکھو کہ خدا کا حکم کیا ہے ۔ یہ نہ دیکھو کہ تمہارا اپنا دل کیا کہتا ہے ، تمہاری عقل کیا کہتی ہے ، باپ دادا کیا کر گئے ہیں ، خاندان اور برادری کی مرضی کیا ہے , جناب مولوی صاحب قبلہ اور جناب پیر صاحب قبلہ کیا فرماتے ہیں ، اور فلاں صاحب کا کیا حکم ہے اور فلاں صاحب کی کیا مرضی ہے ۔ اگر تم نے خدا کی مرضی چھوڑ کر کسی کی بھی بات مانی تو خدائی میں اُس کو شریک کیا . اُس کو وہ درجہ دیا جو صرف خدا کا درجہ ہے ۔ حکم دینے والا تو صرف خدا ہے۔  اِنِ الۡحُكۡمُ اِلَّا لِلّٰهِ‌ؕ ۔ بندگی کے لائق تو صرف وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور جس کے بل بوتے پر تم زندہ ہو ۔  زمین اور آسمان کی ہر چیز اُس کی اطاعت کررہی ہے۔ کوئی پتھر کسی پتھر کی اطاعت نہیں کرتا ۔ کوئی درخت کسی درخت کی اطاعت نہیں کرتا۔کوئی جانور کسی جانور کی اطاعت نہیں کرتا۔پھر کیا تم جانوروں اور پتھروں سے بھی گئے گزرے ہو گئے کہ وہ تو وہ صرف خدا کی اطاعت کریں اور تم خدا کو چھوڑ کر انسانوں کی اطاعت کرو؟  


{مسلمان کسے کہتے ہیں۔خطبات حصہ اول - مولانا سید ابو ال اعلیِ مودودی رحمتہ اللہ علیہ }

Friday, December 2, 2011

امت مسلمہ کی اہل مغرب کی اندھی تقلید

   امت  مسلمہ کی اہل مغرب کی اندھی تقلید

      (مولانا  سید ابو اعلیٰ مودودی کی کتاب پردہ سےاقتباس)


یہی بہرانی کیفیت کا زمانہ تھا جس میں مغربی معاشرت ،مغربی آداب و اطوار حتٰی کہ چال ڈھال اور بول چال تک میں مغربی طریقوں کی نقل اُتاری گئی۔مسلم سوسائٹی  کو مغربی سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کی گئیں۔الحاد،دہریتاور مادہ پرستی کو فیشن کے طور پر بغیر سمجھے بوجھے قبعل کیا گیا۔ہر وہ پختہ یا خام تخیل جو مغرب سے آیا ،اس پر ایمان بل غیب لانا اور اپنی مجالس میں اسےمعرض بحث بنانا روشن خیالی کا لازمہ سمجھا گیا ۔شراب ،جوا ،لاٹری،ریس ،تھیٹر،رقص و سرور اور مغربی تہذیب  کے دوسرے سمرات کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ۔شائستگی ،اخلاق ،معاشرت ،معیشت،سیاست ،قانون،حتّٰی کہ مذہبی عقائد  اور عبادات  کے متعلق بھی جتنے مغربی نظریات یا عملیات تھے  انھیں کسی تنقید اور کسی فہم و تدبر کے بغیر اس طرح تسلیم کرلیا گیا کہ گویا وہ آسمان سے اُتری ہوئی وہی وحی ہیں جس پر سمعنا و اطعنا کہنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ۔اسلامی تاریخ کے واقعات ،اسلامی شریعت کے احکام اور قران و حدیث کے بیانات میں سے جس جس  چیز کو اسلام کے پُرانے دشمنوں نے نفرت یا  اعتراض کی نگاہ سے دیکھا اس پر مسلمانوں کو شرم آنے لگی اور انھوں نے کوشش کی کہ اس داغ کو کس طرح دھوڈالیں۔انھوں نے جہاد پر اعتراض کیا ۔انھوں نے عرض کیا کہ حضور بھلا ہم کہاں اور جہادکہاں؟انھوں نے غلامی پر اعتراض کیا ۔انھوں نے کہا غلامی تو ہمارےہاں بلکل ہی نا جائز ہے۔انھوں نے تعددازدواج  پر  اعتراض کیا ۔انھوں نے فوراً  قران پاک کی ایک آیت پر خط نسخ پھیر ڈالا۔انھوں نے کہاعورت و مرد میں کامل مساوات ہونی چاہیے،انھوں نے کہا یہی ہمارا مذہب بھی ہے۔انھوں نے قوانین نکاح و طلاق پر اعتراضات  کئے۔یہ ان  سب میں ترمیم کرنے پر تل گئے۔انھوں نے کہا اسلام آرٹ کا دشمن ہے۔انھوں نے کہا اسلام آرٹ کا دشمن ہے۔انھوں نے کہا اسلام تو ہمیشہ سےناچ گانے اور مصوری وبت تراشی کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔ 

مسلمان کی تعریف - مولانا سید ابو الاعلی مودودی

 مسلمان کہتے ہی اُس کو ہیں جو خدا کے سوا کسی کا بندہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کا پیرو نہ ہو ۔ مسلمان کہتے ہی اُس کو ہیں جو خدا کے سوا کسی کا پیرو نہ ہو ۔ مسلمان وہ ہے جو سچّے دِل سے اِس بات پر یقین رکھتا ہو کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سرا سر حق ہے ، اُس کے خلاف جو کچحھ ہے وہ باطل ہے اور انسان کے لیے دین اور دنیا کی بھلائِ جو کچھ بھی یے صرف خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیم میں ہے ۔ اِس بات پر کامل یقین جس شخص کو ہوگا وہ اپنی زندگی کے ہر معالملہ میں یہ صرف یہ دیکھے گا  کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حکم ہے ۔ اور جب اسے حکم معلوم ہوگا تو وہ سیدھی طرح سے اُس کے آگے سر جُھکا دے گا ۔ پھر چاہے اُس کا دل کتنا ہی تلملائے اور خاندان کے لوگ کتنی ہی باتیں بنائیں ، اور دنیا والے کتنی ہی مخالفت کریں ، وہ ان میں سے کسی کی پروا نہ کرے گا ، کیونکہ ہر ایک کو اس صاف جواب یہی ہوگا کہ میں خدا کا بندہ ہوں تمہارا بندہ نہیں ہوں۔ اور میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا ہوں ، تم پر ایمان نہیں لایا ہوں۔

اس کے بر خلاف اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ خدا اور رسول صلہ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے کہ تو ہوا کرے ، میرا دل تو اس کو نہیں مانتا ، مجھے تو اس میں نقصان نظر آتا ہے ، اس لیے میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو چھوڑ کر اپنی رائے پر چلوں گا ، تو ایسے شخص کا دل ایمان سے خالی ہوگا ۔ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے کہ زبان سے تو کہتا ہے  کہ میں خدا کا بندہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیرو ہوں ، مگر حقیقت میں اپنے نفس کا بندہ اور اپنی رائے کا پیرو بنا ہوا ہے ۔

اِسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کچھ بھی ہو ، مگر فلاں بات تو باپ دادا سے ہوتی چلی آرہی ہے، اس کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے، یا فلاں قائدہ تو میرے خاندان یا برادری میں مقرر ہے ، اسے کیوںکر توڑا جا سکتا ہے ، تو ایسے شخص کا شمار بھی منافقوں میں ہوگا ، خواہ نمازیں پڑھتے پڑھتے اس کی پیشانی پر کتنا بڑا گٹّا پڑ گیا ہو اور ظاہر میں اُس نے کتنی بڑی متشرّع صورت بنا رکھی ہو ۔ اس لیے کہ دین کی حقیقت اُس کے دل میں اُتری ہی نہیں ۔ دین رکوع ،اور سجدے اور روزے کا نام نہیں ہے ، اور نہ دین انسان کی صورت اور اس کے لباس میں ہوتا ہے ، بلکہ اصل میں دین نام ہے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا ۔ جو شخص اپنے معاملات میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا انکار کرتا ہے ، اس کا دل حقیقت میں دین سے خالی ہے ، اس کی نماز اور روزہ اور اس کی متشرّع صورت ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔

اِسی طرح اگر کوئی شخص خدا کی کتاب اور اِس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے بے پروا ہو کر کہتا ہے فلاں بات اِس لیے اختیار کی جائے کہ وہ انگریزوں میں رائج ہے اور فلاں بات اس لیے قبول کی جائے کہ فلاں قوم اُس کی وجہ سے ترقی کر رہی ہے ، اور فلاں بات اس لیے مانی جائے کہ فلاں بڑا آدمی ایسا کہتا ہے ، تو ایسے شخص کو بھی اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے ۔ یہ باتیں ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں۔ مُسلمان ہو اور مسلمان رہنا چاہتے ہو تو ہر اُس بات کو اُٹھا کر دیوار پر دے مارو جو خدا اور رسُول کی بات کے خلاف ہو۔ اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو اسلام کا دعوٰی زیب نہیں دیتا ۔ زبان سے کہنا کہ ہم خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں ۔ مگر اپنی زندگی کے معاملات میں ہر وقت دوسروں کی بات کے مقابلہ میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو در کرتے رہنا ، نہ ایمان ہے ، نہ اسلام ، بلکہ اس کا نام منافقت ہے

{ایمان کی کسوٹی - خطبات  حصہ اول - مولانا سید ابو الا علی مودودی رحمتہ اللہ علیہ}

جہاد کا صحیح اسلامی تصور


اسلام میں جہاد کا کیا معنی ہے ؟ 
جہاد کا لفظ قران میں وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے اور قرانی اصطلاح میں اللہ کے دین کی سر بلندی کے جذبے ، نیت اور ارادے سے کی جانے والی دعوتی تحریری،زبانی ، قانونی آئینی معاشی سیاسی علمی اصلاحی تحریکی اور جہادی کوشش "جہاد" ہے۔اور اس کا آخری درجہ اللہ کے لیے اپنی جان قربان کر دینا یعنی قتال فی سبیل اللہ ے۔قران مجید نے "جہاد" کی اسطلاح اسی وسیع منی میں استعمال کی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے 
فلا تطع الكافرين وجاهدهم به جهادا كبيرا 
پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو
سورۃ الفرقان ایت 52 
مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ سورت مکی ہے۔اس آیت میں "ہ" ضمیر قران کی لوٹ رہی ہے ۔ جمہور مفسرین حضرت عبداللہ بن عباس جلیل القدر تابعی مقاتل بن حیان ، امام جریر طبری ، امام قرطبی ، امام بغوی ، امام بیضاوی ،امام ابن تیمیہ ، علامہ ابن جوزی ،علامہ آلوسی علامہ زمخشری ، علامہ ابن عاشورا مالکی ، سید قطب شہید ،علامہ ابو بکر الجزائری اور ڈاکٹر اسرار احمد نے آیت میں مذکور "ہ" ضمیر سے مراد قران لیا ہے۔جبکہ بعض مفسرین مثلا امام رازی ، ابن عادل حنبلی ،امام بقاعی وغیرہ نے اس ضمیر سے مراد سے اللہ کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ رسالت لیا ہے جبکہ بعض نے اس ضمیر سے مراد اسلام لیا ہے ۔ ان مفسرین کی آراء نقل کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آئمہ سلف کے نذدیک اس آیت میں جہاد سے مراد قتل نہیں ہے ، بلکہ یہ لفط یہاں اپنی صلاحیتیں کھپانے اور کوشش کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
احادیث میں بھی جہاد کی اصطلاح انہی وسیع معنوں میں استعمال ہوئی ہے ۔ ایک روایت کہ الفاظ ہیں 
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " مجھ سے پہلے اللہ کسی قوم میں اللہ تعالی نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کہ حواری اور ایسے ساتھی نہ ہوں جو اس کے طریقے کے مطابق چلتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے ۔ پھر اس کے بعد کچح نہ خلف قسم کے لوگ ان کے جانشین بنتے تھے جو ایسی باتیں کہتے تھے کہ جن پر خود عمل نہیں کرتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے جس پر کرنے کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا۔پس جس نے ان کے ساتھ اپنے ہاتھ سے جہاد کیا وہ مومن اور جس نے اپنی زبان سے جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے اپنے دل سے جہاد کیا وہ مومن ہے۔اور اس کے بعد تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔{مسلم}۔
ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:۔
مشرکین کے ساتھ اپنی جانوں ، اپنے مالوں اور اپنی زبانوں سے جہاد کرو {سنن ابی داود }۔
پس جہاد کا معنی صرف قتال نہیں ہے جیسا کہ یہ غلط فہمی بہت عام ہو چکی ہے ۔ البتہ قتال "جہاد" کی ایک بلند ترین صورت ضرور ہے ۔ جہاد سے مراد اعلائے کلمتہ اللہ کے لیے کی جانے والی ہر قسم کی جدوجہد اور کوشش ہے ۔جہاد کی کم از کم ۴ اقسام ہیں جن کو شیخ ابو بکر الجزائری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف "منہاج ال مسلم " میں گنوایا ہے  جس کی تفسیل کتاب ھذا میں دیکھی جا سکتی ہے ۔


لڑکی والوں کے یہاں شادی کا کھانا ناجائز کیوں - مولانا سید شہاب عالم ندوی


بعض لوگ کہتے ہیں کہ لڑکی والے اگر نکاح کے موقع پر اپنی خوشی سے دعوت کردیں تو اس میں کیا برائی ہے اور شرعی اعتبار سے اس کی ممانعت کی دلیل کیا ہے ؟ تو اس مسئلے کو دو پہلو ہیں : پہلا یہ کہ اگر ایسا کھانا لڑکے والوں کے مطالبہ پر ہو تو وہ صاف طور پر "اکلِ باطل" ہے جس کی ممانعت قرآن مجید میں آئی ہے {سورۃ نساء 29} چناچہ اس آیت کے مطابق لوگوں کا مال نا حق کھانا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔اور مفسرین نے تصریح کی ہے کہ بغیر کسی معاوضہ کے کسی کا مال کھانا بھی اکل باطل ہے میں شامل ہے ۔پھر چونکہ شریعت نے شادی بیاہ کے اخراجات مرد پر عائد کیے ہیں عورت پر نہیں اس لیے لڑکی والوں سے اس قسم کا مطالبہ کرنا شرعاً نا جائز ہے اور پھر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا سنت صحابہ سے بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اسلامی دور میں لڑکی والوں نے کبھی نکاح کی دعوت کی ہو ۔ بلکہ اگر ثبوت ملتا ہے تو صرف ولیمے کا جو مرد کی طرف سے کیا جاتا ہے ۔ اور  یہ بات عقلی اعتبار سے بھی صحیح ہے ۔ کیونکہ لڑکی لڑکے کا گھر بسانے کے لیے لڑکے کے یہاں جاتی ہے نا کہ لڑکا لڑکی کا گھر بسانے کے لیے لڑکی کے یہاں جاتا ہے ۔اِس لئے نظام فطرت کی رو سے جب اِس کا فائدہ مرد کو مِل رہا ہے تو اس کے اخراجات بھی اس ہی کو برداشت کرنے پڑیں گے۔

اب رہا یہ دوسرا پہلو کہ اگر لڑکی والے بغیر کسی مطالبہ کہ اپنی خوشی سے دعوت کردیں تو اس میں کیا برائی ہے ؟ تو اس طرح کہدینا بظاہر تو ایک آسان بات معلوم ہوتی ہے مگر وہ در حقیقت بجائے خود بہت سی برائیوں کا مجموعہ ہے۔ مگر اس موقع پر تین باتوں لحاظ رکھنا ضروری ہے : پہلی  بات اگر لرکی والے اس قسم کا کھانا اپنی خوشی سے ہی کیوں نہ کھلائیں تب بھی وہ لڑکی والوں پر ایک خلاف شرع بوجھ ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اگر چہ وہ بظاہر خوش دلی سے کھلاتے ہوئے دکھائی دیتے ہوں مگر دل ہی دل میں کُڑحھ رہے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ جب شریعت نے اس قسم کی گنجائش ہی نہیں رکھی ہے تو پھر ہم اس کی گنجائش کیوں نکالیں ؟ دوسری بات یہ کہ جب کچھ لوگ  محض خوش دلی ہی سے سہی جب کوئی کام شروع کرتے ہیں تو وہ بعد والوں کے لیے ایک مثال اور ایک "روایت" بن جاتا ہے اور لوگ عام طور پر اپنے بزرگوں کے روایات پر عمل کرنا اور اس کے لئے کوئی بھی مشکل گوارا کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔ لہزا بات جب یہاں تک پہنچ جائے تو محض خوش دلی کا نہیں رہ جاتا ۔ اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو نظر آئے گا کہ نکاح کی موجودہ دعوتیں اول اول کسی نے بغیر کسی جبر کے خوش دلی ہی سے کھلائی ہوں گی ۔ مگر آج معاملہ محض خوش دلی کا نہیں رہ گیا ہے بلکہ اسے فرض و واجب  کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔ اگر کوئی غریب آدمی اپنی لڑکی کے نکاح پر دعوت نہ کرے تو نہ صرف اس نکاح کو ادھورا سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے نکّو اور نکما تک قرار دیا جاتا ہے ۔ گویا اس سے بہت بڑا گناہ سر زد ہوگیا ہو۔

تیسری بات یہ کہ اگر اس طرح ہر شخص کو چھوٹ دے دی جا ئے کہ اگر کوئی چاہے تو اپنی خوشی سے دعوت کرے اور اگر نہ چاہے تو نہ کرے تو اس کے نتیجے میں ہمارا معاشرا واضع طور پر دو طبقوں میں بٹ جائے گا اور بعض نئے سماجی مسائل پیدا ہوجائیں گے ۔ چناچہ لوگ عموماً دعوت کرنے والوں کی تعریف کرتے اور نہ کرنے والوں پر طعنے کستے رہیں گے ۔ اس طرح استطاعت نہ رکھنے والے ہمیشہ احساس کمطری میں مبطلا رہیں گے۔

ان کے علاوہ بھی اور کئی طرح کی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں، لہذا ضروری ہے کہ ایسے تمام غیر شرعی رسوم و رواجات کو ختم کر کے ہزاروں لاکھوں بندگانِ خدا کو راحت پہنچائی جائے جو زمانے کے بے رحم ہاتھوں میں پھنس کر اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں اور جن کے گھروں میں دو چار لڑکیاں موجود ہیں وہ تو گویا کہ زندہ درگور ہیں۔


{نکاح کتنا آسان اور کتنا مشکل از مولانا محمد شہاب الدین ندوی حفظہ اللہ }