Wednesday, September 21, 2011

حکمت اور دعوت دین



دین ک دعوت دینا ایک اہم فریضہ ہے اور امت مسلمہ کے فرائض میں سے ہے جیسا کہ قران میں ارشاد باری تعالٰی ہے 

تم سب امتوں میں سے بہتر ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہیں اچھے کاموں کا حکم کرتے رہو اور برے کاموں سے روکتے رہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو 
سورۃ آل عمران آیت 110

You are the best _Ummah ever raised for mankind. You bid the Fair and forbid the Unfair, and you believe in Allah.

جس طرح اس کام کو سر انجام کرنے کی ذمہ داری ہم پر اللہ تعالٰی نے دی ہے اس ہی طرح اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے لائحہ عمل بھی قران و سنت میں ملتا ہے ۔ جیسا کہ قران میں ارشاد ہے 

اے نبی! آپ (لوگوں کو) اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سےایسےطریقہ سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو۔ بلاشبہ آپ کا پروردگار اسے بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک چکا ہے اور وہ راہ راست پر چلنے والوں کو بھی خوب جانتا ہے

سورۃ نحل آیت 125

Invite (people) to the way of your Lord with wisdom and good counsel. And argue with them in the best of manners. Surely, your Lord knows best the one who deviates from His way, and He knows best the ones who are on the right path

یہان جن چار چیزوں کا ذکر ہے اس میں جس چیز کا تزکرہ کرنا مقصود ہے وہ  حکمت ہے جیسا کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ داعیان دین میں سب سے زیادہ کمی اس ہی کی پائی جاتی ہے۔ غیرت ایمانی میں آکر بعض لوگ نہ موقع دیکھتے  ہیں نہ محل بس دعوت دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح کی دعوت بجائے سود مند ہونے کے اُلٹا نقصاندہ ہوتا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول اپنی شرح بخاری میں نقل کرا ہے  
 حضرت علی فرماتے ہیں :"لوگوں سے ان کی سمجھ بوجھہ کے مطابق بات کیا کرو . کیا تم چاہتے ہو لوگ الله اور اس کے رسول کے منکر ہوجاییں"
(فتح الباری ج 1 ص ١٢٧)

کوئی بھی مسلہ ہو دین کا یہ یا دنیا کا ہمارے لیے بہترین نمونہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،جیسا کہ قران میں ارشاد ہے۔

البتہ تمہارے لیے رسول اللہ میں اچھا نمونہ ہے جو اللہ اور قیامت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے

سورۃ احزاب آیت 21

 There is indeed a good model for you in the Messenger of Allah - for the one who has hope in Allah and the Last Day, and remembers Allah profusely.

چناچہ جب ہم سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو متعدد ایسے واقعات نظر  آتے ہیں جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملات کو نہایت حکمت کے ساتھ حل کرا۔جیسا کہ آگے درج احادیث سے اندازہ ہوتا ہے۔

مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 2259 حدیث مرفوع 
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجئے لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سے فرمایا میرے قریب آجاؤ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا کر بیٹھ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا کہ اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس کے جسم پر رکھا اور دعاء کی کہ اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما، راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

 حکمت کا ایک اور مظھر 
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 661 حدیث مرفوع مکررات 16 متفق علیہ 8 بدون مکرر 
زہیر بن حرب، عمر بن یونس، عکرمہ بن عمار، اسحاق بن ابی طلحہ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک دیہاتی آیا اور مسجد میں پیشاب کرنے کھڑا ہو گیا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ٹھہر جا ٹھہر جا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو مت روکو اور اسکو چھوڑ دیا پس صحابہ نے اس کو چھوڑ دیا یہاں تک کہ اس نے پیشاب کر لیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بلوایا اور اس کو فرمایا کہ مساجد میں پیشاب اور کوئی گندگی وغیرہ کرنا مناسب نہیں یہ تو اللہ عزوجل کے ذکر اور قرآن کے لئے بنائی گئی ہیں یا اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشا فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو حکم دیا تو وہ ایک ڈول پانی کا لے آیا اور اس جگہ پر بہا دیا۔

Anas b. Malik reported: While we were in the mosque with Allah's Messenger (may peace be upon him), a desert Arab came and stood up and began to urinate in the mosque. The Companions of Allah's Messenger (may peace be upon him) said: Stop, stop, but the Messenger of Allah (may peace be upon him) said: Don't interrupt him; leave him alone. They left him alone, and when he finished urinating, Allah's Messenger (may peace be upon him) called him and said to him: These mosques are not the places meant for urine and filth, but are only for the remembrance of Allah, prayer and the recitation of the Qur'an, or Allah's Messenger said something like that. He (the narrator) said that he (the Holy Prophet) then gave orders to one of the people who brought a bucket of water and poured It over.

دعوت دین کے اندر ایک اہم مقام نہی عن المنکر کو حاصل ہے یہان سب سے زیادہ احتیات رکھنے کی ضرورت ہے۔اختصار کے لیے امام ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ کا ایک قول ہی نقل کرنا کافی ہے جس مین آپ نے پورے سمندر کو قوزے میں بند کردیا ہے۔اللہ آپ کے درجات کو بلند کرے۔آمین 

انکار منکر کے چار درجات ہیں پہلا درجہ وہ ہے کہ جس سے منکر ختم ہوجائے اور اس کی جگہ معروف قائم ہوجائے۔دوسرا درجہ یہ ہے کہ منکر کم ہوجائے اگر چہ مکمل ختم نہ ہو۔تیسرا درجہ یہ ہے کہ منکر تو ختم ہوجائے لیکن اس کی جگہ ایک ویسا ہی منکر اور آجائے اور چوتھا درجہ یہ ہے کہ اس منکر کے خاتمے کے بعد اس سے بھی بڑا اور بدترین منکر آجائے ۔ پس پہلےدو درجے مشروع ہیں جبکہ تیسرا درجہ اجتہاد کا میدان ہے اور چوتھا درجہ حرام ہے۔

دعوت دین ایک بڑا اہم فریضہ ہے اگر قران و سنت میں بیان شدہ احکامات کو نظر میں رکھ کر کیا جائے۔
اللہ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم عطا فرمائے اور اپنے دین کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت فارغ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین

No comments:

Post a Comment